Get Mystery Box with random crypto!

(وسائل الشيعة؛ ج‌7، ص: 422) ترجمہ :راوی کہتا ہے کہ میں نے امام | Marfat Imam Zamana Ajf Srvc

(وسائل الشيعة؛ ج‌7، ص: 422)
ترجمہ :راوی کہتا ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ کس وقت قربانی کی جائے تو فرمایا کہ جب امام معصومؑ چلا جائے (یعنی نماز جماعت ختم ہو جائے) تو راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا :
اگر میں ایسی جگہ پر ہوں کہ جہاں امام معصوم نہ ہو اور میں ان کے ساتھ نماز جماعت کے ساتھ پڑھوں تو پھر کس وقت؟تو فرمایا کہ : جب سورج بلند ہوجائے ۔ اور امام علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اکیلی نماز پڑھو اور بیشک نماز (واجب) نہیں ہے مگر امام ِمعصومؑ کےساتھ ۔
اب اس روایت میں واضح دیکھ سکتے ہیں کہ وہ بندہ ایسی جگہ کے بارے سوال کر رہا ہے کہ جہاں امام معصوم جماعت کرانے والے نہ ہو اور وہ غیر معصوم امام کے پیچھے نماز عید پڑھ رہا ہو تو امام علیہ السلام نے اسے منع نہیں فرمایا کہ تمہاری غیر معصوم ؑ کے پیچھے نماز ہی درست نہیں بلکہ اتنا فرما دیا کہ اگر فرادیٰ پڑھ لو تو بھی حرج نہیں ہے ۔
مطلب واضح ہے کہ غیر معصوم کے پیچھے نماز پڑھنے سے نہیں روکا گیا بلکہ امام صادق علیہ السلام کی واضح روایت بھی ہے کہ نماز عید کو جس طرح تم فرادی ٰ پڑھ سکتے ہو اسی طرح جماعت کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہو:
روایت:عَنِ الصَّادِقِ ع أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْأَضْحَى وَ الْفِطْرِ- فَقَالَ صَلِّهِمَا رَكْعَتَيْنِ فِي جَمَاعَةٍ وَ غَيْرِ جَمَاعَةٍ. (وسائل الشيعة، ج‌7، ص: 425‌)
ترجمہ:امام صادق علیہ السلام سے اضحی اور فطر کی نماز کےمتعلق پوچھا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:کہ تم یہ دو نمازیں دو رکعت کر کے پڑھو ، چاہے جماعت کے ساتھ پڑھو یا بغیر جماعت کے ساتھ ۔
پس ان روایات سے واضح ہو گیا کہ غیبت کے زمانے میں جس طرح عید کی نماز فرادیٰ پڑھنا مستحب ہے اسی طرح جماعت کے ساتھ پڑھنا بھی درست ہے ۔
اب آپ ان روایات کو مانیں یا ان کا انکار کریں یا ان کی تشریح اور تفسیر الگ طرح کی کریں یہ آپ کا مسئلہ ہے ۔
اور انسانی شعور کا یہی کہنا ہے کہ جس طرح نیم حکیم خطرہ برائے جان ہوتا ہے اسی طرح نیم ملا خطرہ برائے دین ہوتا ہے ۔لہذا خود سے نیم ملا بننے کی بجائے اہل تقویٰ و اہل علم فقہاء کی طرف رجوع کریں اور فقہاء کے درمیان اختلاف کی صورت میں جو زیادہ اعلم ہے یعنی حدیث فہمی کی زیادہ معرفت رکھنے والے کی طرف رجوع کریں ۔
فقاہت کے استاد سید خوئی رح فرماتے ہیں کہ :
زمانہ غیبت میں نماز عید کا مستحب ہونا ہمارے اصحاب میں مشہور ہے بلکہ ذخیرہ کتاب میں ہے کہ کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں ہے کہ جو صراحت کے ساتھ بتلاتی ہو کہ زمانہ غیبت میں نماز عید واجب ہے بلکہ بہت ساروں نے واجب نہ ہونے پر اجماع تک کا دعویٰ کیا ہے ۔ (موسوعة الإمام الخوئي، ج‌19، ص: 310‌)
خدا ہم سب مؤمنین کو آپس میں اتحاد و اتفاق عطا فرمائے اور اپنے اختلافی مسائل کو علمی انداز اور خوش اسلوبی سے حل کرنے کی توفیق دے ۔ آمین
اللھم صل علی محمد و آل محمد وعجل فرجہم
اہم نوٹ: ان جیسے فقہی مسائل میں میرا مقصد روایات سے ممکنہ اور آسان فہم استدلال کو بیان کرتا ہوتا ہے ، مقصد فقہاء کے استدلال کو بیان کرنا نہیں ہوتا۔ فقہاء کا استدلال دقیق اور مشکل ہوتا ہے کہ جس میں سند اور کتب اور نسخوں کی بحث شامل ہوتی ہے۔ میرا مقصد فقط یہ واضح کرنا ہے کہ فقھاء پر قیاس اور ظن اور ذاتی رائے جیسے گناہان کبیرہ کی تھمت لگانا غلط ہے اور فقیہ کے پاس روایات ہوتی ہیں کہ جن سے وہ استدلال کرتا ہے۔

مولانا شیخ تقی ھاشمی نجفی