Get Mystery Box with random crypto!

تیسری قسم : امام معصوم ؑ کی غیرموجودگی میں یعنی غیبت میں عید ک | Marfat Imam Zamana Ajf Srvc

تیسری قسم : امام معصوم ؑ کی غیرموجودگی میں یعنی غیبت میں عید کی نماز فرادیٰ پڑھنا مستحب ہے ۔
روایت:قَالَ: سُئِلَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع عَنِ الرَّجُلِ- لَا يَخْرُجُ فِي يَوْمِ الْفِطْرِ وَ الْأَضْحَى- أَ عَلَيْهِ صَلَاةٌ وَحْدَهُ فَقَالَ نَعَمْ.(وسائل الشيعة، ج‌7، ص: 424)
راوی کہتا ہے کہ امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا:ایک بندہ عید فطر اور اضحی پڑھنے کےلئے نہیں نکلتا تو کیا اس پر الگ نماز پڑھنا واجب ہوگا؟امام علیہ السلام نے جواب دیا: جی ہاں ۔
اب اس روایت میں واضح لکھا ہے کہ الگ نماز عید پڑھنا ہوگی ، جبکہ دوسری قسم میں تھا کہ امام ؑ معصوم کی جماعت کے بغیر عید نماز ہے ہی نہیں ۔
اب یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس روایت میں اور اسی جیسی دوسری روایات میں نماز عید امام معصوم ؑ کے بغیر فرادیٰ پڑھنے کا حکم ہے یعنی فرادیٰ پڑھنا واجب ہے تو پھر یہ مستحب کہاں سے سمجھ لیا ؟
یعنی فقہاء نے یہ کہاں سے سمجھ لیا کہ زمانہ غیبت میں عید کی نماز پڑھنا مستحب ہے اور واجب نہیں ؟
ہمارے فقہاء اور مذہب تشیع میں ذاتی رائے اور قیاس فعل حرام ہے اور فقہاء کے پاس پاس روایات ہوتی ہیں ۔
جیسا کہ بطور مثال مستحب ثابت کرنے کےلئے ہم کچھ روایات کا ذکر کرتے ہیں لیکن سب سے پہلے آپ مستحب کا معنی سمجھ لیں ، پھر یہ نہ کہنا کہ روایت میں مستحب کا لفظ لکھا نظر نہیں آیا ۔ جیسا کہ کچھ عوامی لوگ ولایت فقیہ یا یا ولایت تکوینی کا اس وجہ سے انکار کرتے ہیں یہ لفظ لکھے ہوئے روایات میں نظر نہیں آر ہے ۔
بھائی لفظ چھوڑیں ، معنی اور مفہوم پر توجہ دیں ۔ لکیر کے فقیر نہ بنیں ۔
مستحب کا معنی: جس کا حکم ہو اور پھر چھوڑنے کی اجازت بھی ہو ۔
جیسے نماز شب پڑھنے کا حکم ہے لیکن چھوڑنے کی اجازت بھی ہے ۔ پس یہ مستحب ہوجائے گا اور اگر چھوڑنے کی اجازت نہ ہو تو واجب ہو جائے گا جیسے نماز فجر کا حکم ہے اور چھوڑنے کی اجازت نہیں تو اس لئے واجب ہے ۔
مستحب کو ثابت کرنے کےلئے دلیل روایات کو جمع کرنا ہے جیسا کہ شیخ طوسی ؒ الاستبصار میں لکھتے ہیں :
فَالْوَجْهُ فِي هَذِهِ الْأَخْبَارِ أَنْ نَحْمِلَهَا عَلَى ضَرْبٍ مِنَ الِاسْتِحْبَابِ لِأَنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ فَرْضٌ وَ عَلَى الِانْفِرَادِ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ
ترجمہ: ان روایات سے ہم استحباب سمجھیں گے چونکہ یہ نماز امام علیہ السلام کے ساتھ واجب تھی اور اب انفرادی میں سنت مؤکدہ ہوگی ۔
وضاحت: یعنی جب روایات کی پہلی قسم کو دیکھا کہ امامؑ فرما رہے ہیں کہ امام معصوم ؑ کی جماعت میں یہ نماز ہوگی ، ورنہ نماز ہی نہیں ہوگی تو اس قسم کی روایات میں امام علیہ السلام نماز کے فرض ہونے کی نفی کر رہے ہیں ، یعنی اگر امام معصومؑ کی جماعت نہیں ہوگی تو نماز فرض ہی نہیں ہوگی اور جب تیسری قسم کی روایات میں امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر امام ؑ معصوم ؑ کے ساتھ نہیں پڑھتے تو فرادیٰ پڑھو یعنی فرادیٰ پڑھنا فرض نہیں ہے جیسا کہ پہلی قسم کی روایات میں بتلا چکے بلکہ مستحب ہے یعنی اگر چاہو تو چھوڑ بھی سکتے ہو جیسا کہ شیخ طوسیؒ فرماتے ہیں کہ اس مستحب والے معنی کو یہ روایت بھی بتلاتی ہے :
وَ الَّذِي يَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ‌:
عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: لَا صَلَاةَ فِي الْعِيدَيْنِ إِلَّا مَعَ إِمَامٍ وَ إِنْ صَلَّيْتَ وَحْدَكَ فَلَا بَأْسَ.( الاستبصار فيما اختلف من الأخبار، ج‌1، ص: 445)
ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نےفرمایا:عیدین کی نماز نہیں ہے مگر امام معصومؑ کے ساتھ اور اگر تم الگ پڑھنا چاہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
اب یہ جو لفظ ہے کہ فلابأس یعنی کوئی حرج نہیں ہے عربی زبان میں واضح طور پر بتلاتا ہے کہ اس کام کا کرنا واجب نہیں ہے ۔ اگر واجب ہوتا ہے تو فرماتے کہ تم نماز عید فرادیٰ پڑھو ، یہ نہ فرماتے کہ حرج نہیں ہے کہ تم فرادیٰ پڑھ لو ۔
پس یہاں تک ثابت ہوا کہ روایات معصومین علیہم السلام کے مطابق خود غیبت کے زمانہ میں نماز عید پڑھنا جائز ہے بلکہ مستحب ہے ۔
چوتھی قسم : امام معصوم ؑ کی غیرموجودگی میں یعنی غیبت میں عید کی جماعت کے ساتھ پڑھنا جائز ہے ۔
ابھی تک جو روایات ذکر کی ہیں ان سے یہ ثابت ہوگیا کہ امام معصوم کی غیر موجودگی میں عید کی نماز پڑھنا مستحب ہے لیکن فرادیٰ نہ کہ جماعت کے ساتھ ،
تو اب سوال یہ ہے کہ کیا نماز عید کو کوئی غیر معصومؑ امام جماعت پڑھا سکتا ہے اور لوگ جماعت کے ساتھ پڑھیں ؟
جی بالکل روایات میں امام غیر معصوم کے پیچھے پڑھنا اور جماعت کے ساتھ پڑھنا بھی ثابت ہے ، بطور مثال چند روایات ملاحظہ ہوں:
روایت:عَنْ سَمَاعَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ: قُلْتُ لَهُ مَتَى يُذْبَحُ- قَالَ إِذَا انْصَرَفَ الْإِمَامُ- قُلْتُ فَإِذَا كُنْتُ فِي أَرْضٍ لَيْسَ فِيهَا إِمَامٌ- فَأُصَلِّي بِهِمْ جَمَاعَةً- فَقَالَ إِذَا اسْتَقَلَّتِ الشَّمْسُ- وَ قَالَ لَا بَأْسَ أَنْ تُصَلِّيَ وَحْدَكَ- وَ لَا صَلَاةَ إِلَّا مَعَ إِمَامٍ.